پاکستان میں کھڈی کی صنعت بند ہونے کے قریب

 پاکستان میں کھڈی کی صنعت بند ہونے کے قریب

چارسدہ سے سردار سلیم الیاس،

چارسدہ میں ہاتھ سے بننے والے کھڈی کے کپڑے کی صنعت زوال کا شکار ہے  جس کے سبب محنت کش زیادہ متاثر ہو رہے ہیں محنت کشوں کا کہنا ہے مہنگائی ہونے کی وجہ سے دھاگے کی قیمت بڑھی ہے، جس کے باعث کپڑے کی قیمت میں بھی اضافہ ہوتا ہے اور لوگوں کی قوت خرید کم ہوجاتی ہے، جس کا اثر اس صنعت سے وابستہ افراد پر پڑ رہا ہے کھڈی سے کپڑا بنانے والے اگرچہ مرد کم ہیں کیونکہ وہ تو باہر دوسرے کام بھی کرسکتے ہیں لیکن خواتین کے لیے مشکلات زیادہ ہوتی ہیں اگر حکومت ان کے ساتھ تعاون کرے تو کھڈی کی صنعت متاثر نہیں ہوگی

مزدروں کا کہنا ہے پاور لوم یعنی مشینیں لگ گئی ہیں، اس کی وجہ سے کھڈی کا کام بہت زیادہ متاثر ہوا ہے۔ پاورلوم پر کپڑا زیادہ بنتا ہے لیکن کوالٹی اس طرح نہیں ہوتی کپڑا تیار کرنے کے لیے دھاگہ فیصل آباد یا لاہور سے منگوایا جاتا ہے کھڈی پر کپڑا مختلف مراحل سے گزرتا ہے، جہاں خواتین اورمرد دونوں اسے بناتے ہیں لوگ مردانہ کپڑے بھی خریدتے ہیں مگر خواتین کے کپڑے کی زیادہ مانگ ہے

محنت کشوں کا کہنا ہے کہ وہ اپنی نوجوان نسل کو اس کام کی طرف آنے سے روکتے ہیں کیونکہ یہ کام ختم ہوتا جا رہا ہے چار سدہ میں ہاتھ سے بنے کھدر کے کپڑے کا کاروبار کرنے والے آجیرکہتے ہیں کہ ہم 50 سال سے کپڑا تیار کرتے ہیں اب یہاں صرف سردی والا کپڑا تیار ہوتا ہے مارچ سے ہم ہاتھوں سے کھڈی پر کپڑا تیارکرنا شروع کر دیتے ہیں اور نومبر دسمبر تک تیار کرتے ہیں، سردیوں میں سیزن کم ہوجاتا ہے اور چار مہینے میں کپڑا بھیجنا ہوتا ہے

محنت کشوں کا حکومت سے یہ مطالبہ ہے کہ کھدی کی صنعت کو بچانے کے لیئے اعلی اور فوری اقدامات کیئے جائیں بصورت دیگر اس صنعت سے جڑے کئی محنت کش فاقہ کشی پر مجبور ہوجائیں گے